کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان قاہرہ میں بلواسطہ مذاکرات جمعرات کو بھی جاری ہیں۔ اُدھر غزہ کی پٹی میں جاری 72 گھنٹوں کی جنگ بندی کے ختم ہونے میں اب ایک دن سے بھی کم وقت بچا ہے۔
دونوں فریق بظاہر مسئلے کے حل سے خاصے دور ہیں لیکن اُنھوں نے تجویز کیا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی میں توسیع کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیلی عہدیداروں نے کہا کہ کہ وہ یکطرفہ طور پر جنگ بندی میں توسیع کے لیے تیا ر ہیں، لیکن حماس کے نمائندوں نے اس سے انکار کیا ہے کہ اس بارے میں کسی طرح کا معاہدہ موجود ہے۔
جمعرات کو واشنگٹن میں افریقی رہنماؤں کے سربراہ اجلاس کے موقع پر خطاب میں امریکہ کے صدر اوباما نے مصر میں مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیرپا حل کی تلاش اہم ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کا مقصد اس وقت یہ ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے اور غزہ میں دوبارہ تعمیر کا عمل شروع ہو سکے تاکہ وہاں کے لوگوں کو تحفظ کا احساس ہو۔
’’اسرائیل کے لوگ بھی یہ محسوس کریں کہ اُنھیں بھی دوبارہ راکٹ حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘
صدر اوباما نے ایک مرتبہ پھر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
امریکہ اور اسرائیل حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے کیوں کہ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے، جس کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کو خوراک کے حصول کے لیے بیرونی مدد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے خلاف پابندیوں میں اس وقت تک نرمی نہیں کرے گا جب تک اُسے یہ یقین دہانی نا کروا دی جائے کہ حماس غیر مسلح ہو چکی ہے اور وہ ہتھیار برآمد کرنے کے قابل نہیں رہی۔
رواں ہفتے کے اوائل میں اسرائیل نے غزہ سے اپنے فوجی واپس بلاتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے حماس کے زیر استعمال سرنگوں کو کامیابی کے ساتھ تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان سرنگوں کو حماس راکٹ حملوں کے لیے استعمال کرتا تھا۔
چار ہفتوں کی لڑائی میں 1800 فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی بتائی جاتی ہے جب کہ لڑائی میں اسرائیل کے 64 فوجی اور تین شہری ہلاک ہوئے۔